اقبال کی شاعری کا دورِ ثانی

اقبال کی شاعری کا دورِ ثانی


1905-1908 تک کا دور ان کی شاعری کا دوسرا دور ہے   ۔یہ وہ زمانہ ہے جب علامہ اقبال حصولِ تعلیم کے لیے ولایت گیے تھے  ۔ اس میں انہوں نے بہت کم شاعری کی بلکہ کس قدر شاعری ہی  سے دل برداشتہ ہو گئے تھے مگر آ رنلڑ کی کوششوں  سے  دوبارہ راضی ہوئے 



تو شاعری کی زبان فارسی ہو گئی  تا ہم اسے  بھی وہ پوری طرح نباہ نہ سکے ان کی فارسی شاعری کا  شباب ھندوستان میں واپس آ نے پر کائم ہوا ۔انھوں نے اس دور میں جو کچھ کہا اس میں فلسفہ خودی کے ساتھ فلسفہ بے خودی کی جھلک بھی نظر آ تی ہے ۔وطن سے محبت سے اگرچہ ان کو اب بھی  عار نہ تھا تاہم اس دور میں ان کا یہ نظریہ  قائم ہوا کہ وطنیت پر اسلامی   قومیت کی تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔ 

علامہ اقبال وطن واپس آ گئے تو یہ  عزم  ہوصلہ بھی  ساتھ  لے کہ اب شاعری  سے مسلمانوں کی خدمت کروں گا اس لئے ان کی شاعری کو ہم کسی قدر اسلامی شاعری بھی کہ سکتے ہیں ۔ 
 اقبال کی شاعری کا تیسرا دور 

 ١٩٠٧   کی شاعری   سے ان کی شاعری کا تیسرا دور   شروع  ہوتا ہے اس دور میں انھوں  نے فارسی شاعری پر زیادہ توجہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا اردو شاعری پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اردو نظموں میں مقطع یا بعض دوسرے اشعار اور مصرعے فارسی میں ہیں ۔

              اس دور میں علامہ اقبال کی حضور اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت بے انتہا بڑھ گئی تھی  ان کی نظم شفاخانہ   حجاز اس دور کی یادگار ہے جس میں انھوں نے سر زمینِ حجاز میں مرنے کی خواہش کا اظہار بڑے موثر انداز میں کیا ہے ۔"میں اور تو " میں بھی  ان کی عقیدت انتہا کو پہونچی  ہوئی ہے ۔

یورپ کے سفر نے ان میں یہ تبدیلی   پیدا کی اس کے متعدد  وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ قومیت اور وطنیت کے پردے میں دوسری اقوام  کو مٹانے کی جو کوشش کر  رہے تھے یہ راز ان پر آ شکار ہو چکا  تھا جنگ بلقان اور جنگ ترابلس  یہ راز اور عیاں ہو گیا  علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ ، فاطمہ بنت عبداللہ ،اور حضور رسالت مآب کے عنوان سے جو نظمیں اس دور میں لکھیں ان میں مسلمانوں کے جزبات کا اظہار ہے شمع و شاعر بھی اس زمانے کی پر جوش نظم ہے 

دوسری جنگ عظیم  شروع ہوئی اس کا اثر بھی مسلمانوں پر پڑا اور قسطنطنیہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا خلافت بھی نام کی باقی رہ گئی اور واقعہ تو یہ ہے۔ کہ اسلامی ممالک کا سرے سے کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا تھا غریبی بے روزگاری  اور افلاس نے پوری دنیا کا دائرہ سمیٹ ویا تھا  ان سب باتوں کا اقبال نے اثر لیا اور اپنی شاعری میں اس پر تبصرے کیا اپنی نظم خضرراہ  میں ان مسائل کو بخوبی بیان کیا ہے قسطنطنیہ پر جب دوبارہ مصطفی کمال پاشا نے قبضہ کر لیا تو خوشی کی انتہا نہ رہی  اور علامہ نے طلوع اسلام جیسی بلند پایہ نظم لکھی ۔ 
مسلماں کو مسلماں کر دیا  توفاں مغرب نے 
تلاطم  ہائے دریا ہی  سے ہے گوہر کی سیرابی 

یہ نظم بانگ درا کی آ خری نظم ہے اور اس پر اس دور کی شاعری کا خاتمہ ہوتا ہے 


مری ہستی ہی جو تھی میری نظر کا پردا

اٹھ گیا بزم سے میں پردہ محفل ہو کر


عین ہستی ہوا ہستی کا فنا ہو جانا


حق دکھایا مجھے اس نقطے نے باطل ہو کر


خلق معقول ہے محسوس ہے خالق اے دل


دیکھ نادان ذرا آ پ سے غافل ہو کر






















تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نظیر اکبر آ بادی