نظیر اکبر آ بادی

آدمی نامی 

آ دمی نامی "نظیر اکبر آ بادی کی  بہترین نظموں میں سے ہے یہ   ایک بظاہر   سیدھی  سادی نظم معلوم ہوتی 

 لیکن دراصل یہ ایک فلسفیانہ نظم ہے ۔   جس میں زندگی کی ایک فلسفیانہ حقیقت  کو پیش کیا گیا ہے " آ دمی نامی "  میں انسان دوستی  کا گہرا تصور  موجود ہی نظیر  کی زبانی پہلی مرتبہ  اردو  میں انسان اور محض۔ انسان کا تصورِ ہمارے سامنے آ تا ہے انسان جو شیتان بھی ہے اور رحمان بھی جو عرشِ اعلیٰ کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے اور تحت الثریٰ کی پستسیو میں بھی گر سکتا ہے وہ انسان جو مسجد بناتا ہے اور جو نمازیوں کی جوتیاں چوراتا ہے اور وہ جو  جوتیاں چرانے والے کو بھانپتا ہے اور وہ جو ان کو گرفتار کرتاہے ۔  اعلیٰ و ادنیٰ فقیر و امیر عالم  و جاہل  کافر و مومن سب آ دمی ہیں  یعنی ہر  آ دمی فتطری اعتبار سے اور خدا  کے نزدیک   ایک سی حیثیت رکھتاہے '   امیر، غریب ،شریف  رزیل , ادنیٰ، اعلیٰ  کی یہ    تقسیم انسان کے اعمال اور اخلاق  کے  اصولوں  کے سبب  وجود میں آ ئ ہے

 .۔انسانوں کے  درمیان یہ اختلاف اور ان کے مراتب میں فرق  ایسی لعنت ہے جس سے انسانیات مجروح ہو کر رہ گئی ہے ۔نفرت ۔ دشمنی ۔جنگ اور بدامنی  اس تفریق اور اختلاف کا نتیجہ ہیں

شاعر اس نظم  کے  ذریعے انسانیات کا  سبق  دینا چاہتا ہے

 جب اس نظم کے فنی پہلوؤں  پر غور کرتے ہیں توحسب ذیل  خصوصیات نظر  آ تی ہیں۔

  روانی  اور بے    ساختگی اس نظم  کی نمایاں  صفات ہیں۔ بند کا بند پڑتے چلے جائیں کہی بھی    پیچیدگی کا احساس  نہیں ہوتا ۔


مکالماتی انداز
کہی کہی شاعر نے بلکل  گفتگو کا انداز اپنایا ہے  مثلاً 
کہتا  ہے کوئ  لو  کوئ  کہتا ہے لا رے لا ۔
 ظرافت
ہی ایک سنجیدہ نظم ہے لیکن نظیر نے ظرافت کی چاشنی دے کر اسے بوجھل نہیں ہونے دیا وہ ہمیں کہی کہی ہسنے اور مسکرانے پر بھی مجبور کر دیتے ہے مسجد میں نمازیوں کا ذکر کرتے کرتے جب ہو بے ساختگی کے ساتھ کہتے ہیں
 اور آ دمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں

تو کون نہیں ہنس   پڑے گا ۔
 تثبیہ
بڑی اچھوتی  متشبیہیں بھی ملتی ہیں  مثال کے طور  پر کالے آ دمی کی ا لٹے توے سے تثبیہ دی ہے  رعایت لفظی تلمیح اور خاص طور سے صفت تضاد کی مثالیں کثرت سے نظر آ تی ہیں  مثلاً مرید اور پیر ۔حسن اور قبح





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اقبال کی شاعری کا دورِ ثانی